چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
by مضطر خیرآبادی

چاہت کی نظر آپ سے ڈالی بھی گئی ہے
حسرت کسی عاشق کی نکالی بھی گئی ہے

تم نے کسی بیمار کو اچھا بھی کیا ہے
حالت کسی بگڑے کی سنبھالی بھی گئی ہے

تم کھیل سمجھتے ہو مگر یہ تو بتاؤ
آہ دل مضطر کبھی خالی بھی گئی ہے

کیا خاک کروں میں خلش عشق کا شکوہ
یہ پھانس کبھی تم سے نکالی بھی گئی ہے

جھگڑے بھی کہیں رشک رقابت کے مٹے ہیں
الفت میں کبھی خام خیالی بھی گئی ہے

مضطرؔ کو کبھی حسن کا صدقہ بھی دیا ہے
یہ بھیک کبھی آپ سے ڈالی بھی گئی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse