چاہتا ہوں پہلے خود بینی سے موت آئے مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاہتا ہوں پہلے خود بینی سے موت آئے مجھے
by امیر اللہ تسلیم

چاہتا ہوں پہلے خود بینی سے موت آئے مجھے
آپ کو دیکھوں خدا وہ دن نہ دکھلائے مجھے

آس کیا اب تو امید ناامیدی بھی نہیں
کون دے مجھ کو تسلی کون بہلائے مجھے

دل دھڑکتا ہے شب غم میں کہیں ایسا نہ ہو
مرگ بھی بن کر مزاج یار ترسائے مجھے

لے چلو للہ کوئی خضر مینا کے حضور
عالم گم گشتگی کی راہ بتلائے مجھے

اب تو جوش آرزو تسلیمؔ کہتا ہے یہی
روضۂ شاہ نجف اللہ دکھلائے مجھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.