چاک‌ ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاک‌ ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں
by داغ دہلوی

چاک‌ ہو پردہ وحشت مجھے منظور نہیں
ورنہ یہ ہاتھ گریبان سے کچھ دور نہیں

سجدے کرنے سے مٹا خط جبیں اے زاہد
ہم کہے دیتے ہیں قسمت میں تری حور نہیں

محتسب مانع علت ہے گمان مے سے
سونگھنے کو بھی میسر مجھے انگور نہیں

لب تک آئی تھی شکایت کہ محبت نے کہا
دیکھ پچھتائے گا خاموش یہ دستور نہیں

رات دن نامہ و پیغام کہاں تک ہوں گے
صاف کہہ دیجئے ملنا ہمیں منظور نہیں

تم نے دی کوہ کن و قیس سے مجھ کو نسبت
کوئی دیوانہ نہیں میں کوئی مزدور نہیں

کیا کرے داغؔ کوئی اس کی محبت کا علاج
وہ کلیجہ ہی نہیں جس میں یہ ناسور نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse