چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں
by عابد علی عابد

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں
وہ تو بچارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں

جن گلیوں میں ہم نے سکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں
ان گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھرتے ہیں

روپ سروپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے
چاروں کھونٹ بگولے بن کر گھور اندھیرے پھرتے ہیں

جن کے شیام برن سائے میں میرا من سستایا تھا
اب تک آنکھوں کے آگے وہ بال گھنیرے پھرتے ہیں

کوئی ہمیں بھی یہ سمجھا دو ان پر دل کیوں ریجھ گیا
دیکھی چتون بانکی چھب والے بہتیرے پھرتے ہیں

اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا
تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں

اس نگری کے باغ اور من کی یارو لیلیٰ نیاری ہے
پنچھی اپنے سر پہ اٹھا کر اپنے بسیرے پھرتے ہیں

لوگ تو دامن سی لیتے ہیں جیسے ہو جی لیتے ہیں
عابدؔ ہم دیوانے ہیں جو بال بکھیرے پھرتے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse