چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
by مرزارضا برق

چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
تن پہ ہر قطرہ پسینہ کا شرارا ہو گیا

چھپ سکا دم بھر نہ راز دل فراق یار میں
وہ نہاں جس دم ہوا سب آشکارا ہو گیا

جس کو دیکھا چشم وحدت سے وہی معشوق ہے
پڑ گئی جس پر نظر اس کا نظارا ہو گیا

ہم کناری کی ہوس اے گوہر یکتا یہ ہے
آب ہو کر غم سے دل دریا ہمارا ہو گیا

خلق میں گرد یتیمی سے گہر کی قدر ہے
خاکساری سے فزوں رتبہ ہمارا ہو گیا

دل میں ہے اے برقؔ اس بت کے در دنداں کی یاد
یہ گہر عرش بریں کا گوشوارہ ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse