چاند اور سورج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاند اور سورج  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

ابر سیہ کی فرسودہ وہ چادر
تاریک رکھتی کب تک یہ منظر
طلعت پہ ظلمت کیا غالب آتی
کھلتے نہ کب تک فطرت کے جوہر
دامن گھٹا کا خود چاک کرکے
دیکھو وہ نکلا ماہ منور
یہ خاص مظہر مہر مبیں کا
کتنا حسیں ہے اللہ اکبر
جو روپ اس کا وہ روپ اس کا
اتنا مشابہ چہرہ ہے کس کا

مظہر جلالی مظہر جمالی
دونوں کی صورت ہے بھولی بھالی
دونوں سبک رواں کی روش سے
ظاہر نہیں ہے آشفتہ حالی
تابندہ ان کے فیض اثر سے
بزم خیالی بزم مثالی
دن اس سے تاباں رات اس سے روشن
زرکار سند کب دیکھی خالی
نظریں ہیں ان پر حسن اتم کی
جلووں سے اس کے شان ان کی چمکی

خوبی سے کوئی کب ہے معرا
قدرت کا شاہد ہے ذرہ ذرہ
لیکن ہے ان کی شان اور ہی کچھ
ارض و سما کو ہے ان پہ غرہ
آئے گہن میں بھی یہ تو کیا غم
ذات ان کی ظلمت سے ہے مبرا
ہیں میرے روز و شب ان سے دل کش
ہوتا ہوں ان سے خوش روزمرہ
کہتی ہے عشرت میری نظر کی
لے لو بلائیں شمس و قمر کی

خوش کن جب ان کا جاہ و حشم ہو
ذوق نظر پھر کیوں میرا کم ہو
بالغ نظر ہوں اس سے نہ کیوں خوش
کل نوریوں کی ضو جس میں ضم ہو
ہوں دیدہ ور کیوں اس سے نہ شاداں
تاروں کا باقی جس سے بھرم ہو
ان کی نمود ظلمت ربا پر
پرتو فگن جب نور قدم ہو
ہو چاند مدھم یا ماند سورج
چمکیں گے یوں ہی یہ چاند سورج

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse