چاند آج کی رات نہیں نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاند آج کی رات نہیں نکلا
by تصدق حسین خالد

چاند آج کی رات نہیں نکلا
وہ اپنے لحافوں کے اندر چہرے کو چھپائے بیٹھا ہے
وہ آج کی رات نہ نکلے گا
یہ رات بلا کی کالی رات
تارے اسے جا کے بلائیں گے
صحرا اسے آوازیں دے گا
بحر اور پہاڑ پکاریں گے
لیکن اس نیند کے ماتے پر کچھ ایسا نیند کا جادو ہے
وہ آج کی رات نہ نکلے گا
یہ رات بلا کی کالی رات
مغرب کی ہوائیں چیخیں گی بحر اپنا راگ الاپے گا
سائیں سائیں
تاریکی میں چپکے چپکے سنسان بھیانک ریتے پر
بڑھتا بڑھتا ہی جائے گا
موجوں کی مسلسل یورش میں
وہ گیت برابر گاتے ہوئے
جو کوئی نہیں اب تک سمجھا
سبزے میں ہوئی کچھ جنبش سی
وہ کانپا
آہیں بھرنے لگا
چاند آج کی رات نہیں نکلا

بھیڑیں سر نیچے ڈالے ہوئے
چپ چاپ آنکھوں کو بند کئے
میداں کی اداس خموشی میں فطرت کی کھلی چھت کے نیچے
کیوں سہمی سہمی پھرتی ہیں
اور باہم سمٹی جاتی ہیں
چاند آج کی رات نہیں نکلا
چاند آج کی رات نہ نکلے گا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse