چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے
by جلیل مانکپوری

چال ایسی وہ شوخ چلتا ہے
حشر کا جس پہ دم نکلتا ہے

اشک خوں کیوں نہ آنکھ سے ٹپکیں
دل کا ارماں یوں ہی نکلتا ہے

ساقیا ایک جام کے چلتے
کتنے پیاسوں کا کام چلتا ہے

میں کسی سرزمیں کا قصد کروں
آسماں ساتھ ساتھ چلتا ہے

ہائے گردش وہ چشم ساقی کی
میں یہ سمجھا کہ جام چلتا ہے

سرو ہے نام نخل الفت کا
پھولتا ہے کبھی نہ پھلتا ہے

کیا زمانہ بھی ہے اسیر ترا
کہ اشارے پہ تیرے چلتا ہے

تیر دل کا نہ کھینچ رہنے دے
لطف صحبت ہے جی بہلتا ہے

شعر رنگیں نہ سمجھو ان کو جلیلؔ
طوطی فکر لعل اگلتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse