چار سو عالم امکاں میں اندھیرا دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چار سو عالم امکاں میں اندھیرا دیکھا
by اوج لکھنوی

چار سو عالم امکاں میں اندھیرا دیکھا
تو جدھر ہے اسی جانب کو اجالا دیکھا

اس پہ قربان کہ جس نے تری آواز سنی
صدقے اس آنکھ کے جس نے ترا جلوہ دیکھا

خلوت قدس کی بے پردہ تجلی کو نہ پوچھ
شوق نظارہ میں صرف آنکھ کا پردہ دیکھا

آنکھ جب بند ہوئی کھل گیا راز قدرت
شان معبود اندھیرے میں اجالا دیکھا

پردہ اٹھ جائے گا جب روئے تجلی سے کلیم
آپ خود منہ سے کہیں گے کہ ابھی کیا دیکھا

روئے گل رنگ خزاں جوش جنوں فصل بہار
چار دن کے لئے اس باغ میں کیا کیا دیکھا

اوجؔ کج بختیٔ ارباب سخن سے کیا بحث
دامن گل کبھی کانٹوں میں نہ الجھا دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse