چار دن ہے یہ جوانی نہ بہت جوش میں آ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چار دن ہے یہ جوانی نہ بہت جوش میں آ
by امداد علی بحر

چار دن ہے یہ جوانی نہ بہت جوش میں آ
اے بت مست مے حسن ذرا ہوش میں آ

دل یہ کہتا ہے جو وہ شمع عذار آ نکلے
بن کے فانوس پکاروں مرے آغوش میں آ

قدم یار کا آوازہ ہر اک گل پر ہے
امن چاہے جو خزاں سے مری پاپوش میں آ

میرے شعروں کے جو مشتاق ہیں فرماتے ہیں
در مضموں صدف لب سے نکل گوش میں آ

بے قرار ایسے ستارے در غلطاں ہو جائیں
آپ جھمکی سے جو فرمائیں نیا گوش میں آ

پیر ہوں بوجھ محبت کا اٹھاؤں کیوں کر
پھر جوانی کو پکاروں کہ برو دوش میں آ

بسر پیر مغاں روح تو ہی ہی اے روح
جلد شیشے سے نکل جسم قدح نوش میں آ

بیٹھ کر یار کے پہلو میں جو اٹھتا ہوں کبھی
پاۓ خوابیدہ یہ کہتا ہے مجھے ہوش میں آ

روز بد ایک نہ اک دن تجھے ننگیا لے گا
اے زری پوش ہم احباب نمد پوش میں آ

داغ ہو جائے گا یہ تاج زری کا اے شمع
جی جلانے کو نہ خوبان زری پوش میں آ

نعمت غیب سے کہتی ہے مہوس کی ہوا
اڑ کے جوہر کی طرح دیگ سے سرپوش میں آ

داغ ہیں ایک کے پر کالے بھڑک اٹھیں گے
دیکھ او فصل بہاری نہ بہت جوش میں آ

نقل محفل نظر آتا نہیں کوئی ہم میں
شیخ مسجد سے نکل بزم نے و نوش میں آ

وصل میں فصل نہ باقی رہے اے جان جہاں
جیسے پہلو میں ہے دل یوں مرے آغوش میں آ

ہاتھ آئے گا مقرر وہ غزال وحشی
بحرؔ چرتی ہے کہاں عقل ذرا ہوش میں آ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.