چار دن ہے یہ جوانی نہ بہت جوش میں آ
چار دن ہے یہ جوانی نہ بہت جوش میں آ
اے بت مست مے حسن ذرا ہوش میں آ
دل یہ کہتا ہے جو وہ شمع عذار آ نکلے
بن کے فانوس پکاروں مرے آغوش میں آ
قدم یار کا آوازہ ہر اک گل پر ہے
امن چاہے جو خزاں سے مری پاپوش میں آ
میرے شعروں کے جو مشتاق ہیں فرماتے ہیں
در مضموں صدف لب سے نکل گوش میں آ
بے قرار ایسے ستارے در غلطاں ہو جائیں
آپ جھمکی سے جو فرمائیں نیا گوش میں آ
پیر ہوں بوجھ محبت کا اٹھاؤں کیوں کر
پھر جوانی کو پکاروں کہ برو دوش میں آ
بسر پیر مغاں روح تو ہی ہی اے روح
جلد شیشے سے نکل جسم قدح نوش میں آ
بیٹھ کر یار کے پہلو میں جو اٹھتا ہوں کبھی
پاۓ خوابیدہ یہ کہتا ہے مجھے ہوش میں آ
روز بد ایک نہ اک دن تجھے ننگیا لے گا
اے زری پوش ہم احباب نمد پوش میں آ
داغ ہو جائے گا یہ تاج زری کا اے شمع
جی جلانے کو نہ خوبان زری پوش میں آ
نعمت غیب سے کہتی ہے مہوس کی ہوا
اڑ کے جوہر کی طرح دیگ سے سرپوش میں آ
داغ ہیں ایک کے پر کالے بھڑک اٹھیں گے
دیکھ او فصل بہاری نہ بہت جوش میں آ
نقل محفل نظر آتا نہیں کوئی ہم میں
شیخ مسجد سے نکل بزم نے و نوش میں آ
وصل میں فصل نہ باقی رہے اے جان جہاں
جیسے پہلو میں ہے دل یوں مرے آغوش میں آ
ہاتھ آئے گا مقرر وہ غزال وحشی
بحرؔ چرتی ہے کہاں عقل ذرا ہوش میں آ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |