پی بھی اے مایۂ شباب شراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پی بھی اے مایۂ شباب شراب
by قلق میرٹھی

پی بھی اے مایۂ شباب شراب
گرم جوشی سے ہے کباب شراب

مریمی اڑ گئی مسیحا کی
لب نازک پہ ہے شراب شراب

اس سے ہم جا بھڑے عدو کے گھر
ہے پڑی خانماں خراب شراب

کیوں کہ مطلق حرام ہی کہیے
پیجئے گا ملا کے آب شراب

بہر ہر ظرف امتحاں ساغر
ہر تمنا کا انتخاب شراب

بعد ازیں محتسب قسم لے لے
توبہ کرتا ہوں لا شتاب شراب

ضائع اوقات کو نہیں کرتے
پیتے ہیں وقت ماہتاب شراب

سخت ماتم ہے اے شباب ترا
کہ رلاتی ہے خون ناب شراب

محتسب اس کا خون ہے کس پر
جو ہے پیتا بجائے آب شراب

مصحف و خرقہ بیچتے ہیں ہم
ہو گئی جان کو عذاب شراب

اس کی بخشش ہے بے حساب اگر
ہم بھی پیتے ہیں بے حساب شراب

ہر گھڑی ذکر مے ہے اے واعظ
ہو گئی تیری تو کتاب شراب

اے قلقؔ مے کدے میں سجدے کیوں
کون دے گا پئے ثواب شراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse