پیچ فقرے پر کیا جاتا نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیچ فقرے پر کیا جاتا نہیں
by منیرؔ شکوہ آبادی

پیچ فقرے پر کیا جاتا نہیں
کوئی دھاگا دو بٹا جاتا نہیں

بوسۂ لب غیر کو دیتے ہو تم
منہ مرا میٹھا کیا جاتا نہیں

ضعف نے یک دست توڑے پائے زیست
نبض مردہ ہوں ہلا جاتا نہیں

زلف سے سنبل کرے کیا ہم سری
پیچ چوٹی کا کیا جاتا نہیں

تیغ حسن یار سے مجروح ہے
طوطے خط سے اڑا جاتا نہیں

قبر کا طالب عبث ہے جسم زار
چشم دشمن میں سما جاتا نہیں

کیا کشیدہ صورت تصویر ہوں
ناتوانی سے کھنچا جاتا نہیں

ضعف سے پہنچیں گے کیوں کر آپ تک
آپ سے باہر ہوا جاتا نہیں

کھنچ سکے تصویر بیتابی میں کیا
ایک صورت پر رہا جاتا نہیں

روح کو بھی بوسۂ لب کی ہے چاٹ
مر گئے لیکن مرا جاتا نہیں

مردے سے بد تر ہوں گو جیتا ہوں میں
رنگ ہستی میں ملا جاتا نہیں

رنگ کیا قد خمیدہ کا کھلے
چھلے کے گل سے کھلا جاتا نہیں

روز انگیا ہوتی ہے آراستہ
کب نیا بنگلہ سجا جاتا نہیں

پیچ میں آنے کو طاقت چاہئے
تیرے دم پر بھی چڑھا جاتا نہیں

عطر کھنچتا ہے ہماری خاک کا
ہاتھ ملنے کا مزا جاتا نہیں

چٹکیاں میرے سراپے میں نہ لو
جامۂ ہستی چنا جاتا نہیں

کوئی کیا ہم کو بنائے گا منیرؔ
ایسے بگڑے ہیں بنا جاتا نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse