پیوں ہی کیوں جو برا جانوں اور چھپا کے پیوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیوں ہی کیوں جو برا جانوں اور چھپا کے پیوں
by آرزو لکھنوی

پیوں ہی کیوں جو برا جانوں اور چھپا کے پیوں
میں وہ نہیں کہ نگاہیں بچا بچا کے پیوں

مٹا دئے ہیں سب احساس اف رے ذوق شراب
سرور کم نہ ہو ترشی بھی گر ملا کے پیوں

گنہ پہ تہمت بے لذتی نہ رکھ زاہد
مزہ نہ آئے تو کیوں منہ بنا بنا کے پیوں

یہ تشنگی شہادت کا اقتضا اب ہے
کہ آب تیغ ستم زہر میں بجھا کے پیوں

گلے میں لگتی ہے افراط شوق سے پھانسی
پڑے نہ حلق میں پھندا تو ڈگڈگا کے پیوں

ہے ایک ساغر دل اور ہزار رنگ کی مے
نہ ہو جو گھر میں تو بازار سے منگا کے پیوں

بھروسہ کر کے میں اپنے رحیم پر واعظ
مزہ تو جب ہے کہ تجھ کو جلا جلا کے پیوں

طلب سے عار ہے اتنی کہ پیاس گر نہ بجھے
جگر کے خون کو پانی بنا بنا کے پیوں

نگاہ شوق مری روح کھینچ لیتی ہے
نہیں وہ رند کہ ساغر سے منہ لگا کے پیوں

یہ شے کہ جس سے نگاہوں کو رشک دل کو سرور
چھپا چھپا کے انڈیلوں دکھا دکھا کے پیوں

گناہ گار سہی چور میں نہیں زاہد
ہے یہ بھی کفر کہ کعبے سے منہ پھرا کے پیوں

نہ رند تنگ نظر آرزوؔ نہ تنہا خور
جو زہر بھی ہو میسر تو میں پلا کے پیوں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse