پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی
by حیدر علی آتش

پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی
رہے موسی ہی سے یہ لن ترانی

سلیماں ہم ہیں اے محبوب جانی
سمجھتے ہیں تجھے بلقیس ثانی

کھلا سودے میں ان زلفوں کے مر کر
پریشاں خواب تھی یہ زندگانی

یہ کیوں آتا ہے ان سے قد کشی کو
گڑی جاتی ہے سرو بوستانی

وہی دے گا کباب نرگسی بھی
جو دیتا ہے شراب ارغوانی

رنگا ہے عشق نے کس درد سر سے
ہمارا جامۂ تن زعفرانی

مسافر کی طرح رہ خانہ بر دوش
نہیں جائے اقامت دار فانی

ترے کوچہ کے مشتاقوں کے آگے
جہنم ہے بہشت آسمانی

وہ میکش ہوں دیا ہے قابلہ نے
جسے غسل شراب ارغوانی

یقیں ہے دیدۂ باریک بیں کو
کرے عینک طلب یہ ناتوانی

وہ خط ہے یادگار حسن رفتہ
وہ سبزہ ہے گلستاں کی نشانی

نکلتی منہ سے قاصد کے نہیں بات
مگر لایا ہے پیغام زبانی

یہ مشت خاک ہو مقبول درگاہ
صبا کی چاہتا ہوں مہربانی

لئے ہیں بوسۂ رخسارۂ صاف
پیا ہے ہم نے آئینہ کا پانی

سفیدی مو کی ہو کافور ہر چند
کوئی مٹتا ہے یہ داغ جوانی

نہ خوش ہو فربہی تن سے غافل
سبک کرتی ہے مردے کو گرانی

موے جو پیشتر مرنے سے وہ لوگ
کفن سمجھے قبائے زندگانی

جلاتی ہے دل آتشؔ طور کی طرح
کسی پردہ نشیں کی لن ترانی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse