پیمانے میں وہ زہر نہیں گھول رہے تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیمانے میں وہ زہر نہیں گھول رہے تھے
by ریاض خیرآبادی

پیمانے میں وہ زہر نہیں گھول رہے تھے
میرے لئے میخانے کا در کھول رہے تھے

میں دیر میں چپ دور سے منہ دیکھ رہا تھا
کس طرح برے بول یہ بت بول رہے تھے

کرتے تھے وہ بیٹھے ہوئے ناخن سے جدا گوشت
کہنے کو مرے دل کی گرہ کھول رہے تھے

صیاد نے کب ناوک بیداد لگایا
ہم اڑنے کو جب شاخ سے پر تول رہے تھے

اے آنکھ در اشک وہی نزع میں کام آئے
بن کر ترے دامن میں جو انمول رہے تھے

ہم بیٹھے تھے کس طرح تہہ شاخ فسردہ
گل ہنستے تھے مرغان چمن بول رہے تھے

شوخی سے قیامت کو وہ پاسنگ بنا کر
ہم کتنے ہیں باتوں میں ہمیں تول رہے تھے

تھے صبح کو وہ ساغر جم دست گدا میں
آلودہ مے شب کو جو کشکول رہے تھے

کچھ چپ سے ہیں اب حشر میں آنے سے کسی کے
بڑھ بڑھ کے ریاضؔ آج بہت بول رہے تھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse