پیش عاشق چشم گریان و لب خنداں ہے ایک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیش عاشق چشم گریان و لب خنداں ہے ایک
by خواجہ محمد وزیر

پیش عاشق چشم گریان و لب خنداں ہے ایک
جل گیا جو نخل اس کو برق اور باراں ہے ایک

دیکھنے دیتا نہیں اس کو حجاب عشق ہائے
ہوں میں وہ محروم جس کو وصل اور ہجراں ہے ایک

ناتوانی سے ترے بیمار کے رخسار پر
سیلیٔ دست ستم اور سایۂ مژگاں ہے ایک

پیرہن میں یوں بدن ہے جس طرح سے تن میں روح
چشم بد دور اب لطافت میں وہ جسم و جاں ہے ایک

ماہ سے تشبیہ پھر تجھ کو نہ کیوں کر دیجئے
چاندنی اور سایہ تیرا اے مہ تاباں ہے ایک

آپ سے بہتر کی آگے خود نمائی ہے زبوں
روبروۓ مہر ماہ و ابر بے باراں ہے ایک

چاہئے ہنس کر چھڑکنا اے لب جاناں نمک
آتش غم سے کباب اور یہ دل سوزاں ہے ایک

عاشقوں کے آگے مشرک اے بت یکتا ہوں میں
گر کہوں میں حسن میں تو اور مہ کنعاں ہے ایک

سیکڑوں طوطی زباں ہیں یاں اسیر دام غم
خانۂ صیاد اور یہ گنبد گرداں ہے ایک

ایک ہی یہ نور ہے دل میں ہر اک کے جلوہ گر
شیشے ہیں لاکھوں پری سب میں ولے پنہاں ہے ایک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse