پیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیسا
by نظیر اکبر آبادی

نقش یاں جس کے میاں ہاتھ لگا پیسے کا
اس نے تیار ہر اک ٹھاٹھ کیا پیسے کا
گھر بھی پاکیزہ عمارت سے بنا پیسے کا
کھانا آرام سے کھانے کو ملا پیسے کا
کپڑا تن کا بھی ملا زیب فزا پیسے کا
جب ہوا پیسے کا اے دوستو آ کر سنجوگ
عشرتیں پاس ہوئیں دور ہوئے من کے روگ
کھائے جب مال پوے دودھ دہی موہن بھوگ
دل کو آنند ہوئے بھاگ گئے روگ اور دھوگ
ایسی خوبی ہے جہاں آنا ہوا پیسے کا
ساتھ اک دوست کے اک دن جو میں گلشن میں گیا
واں کے سرو و سمن و لالہ و گل کو دیکھا
پوچھا اس سے کہ یہ ہے باغ بتاؤ کس کا
اس نے تب گل کی طرح ہنس دیا اور مجھ سے کہا
مہرباں مجھ سے یہ تم پوچھا ہو کیا پیسے کا
یہ تو کیا اور جو ہیں اس سے بڑے باغ و چمن
ہیں کھلے کیاریوں میں نرگس و نسرین و سمن
حوض فوارے ہیں بنگلوں میں بھی پردے چلون
جا بجا قمری و بلبل کی صدا شور افگن
واں بھی دیکھا تو فقط گل ہے کھلا پیسے کا
واں کوئی آیا لیے ایک مرصع پنجڑا
لال دستار و دوپٹا بھی ہرا جوں طوطا
اس میں اک بیٹھی وہ مینا کہ ہو بلبل بھی فدا
میں نے پوچھا یہ تمہارا ہے رہا وہ چپکا
نکلی منقار سے مینا کے صدا پیسے کا
واں سے نکلا تو مکاں اک نظر آیا ایسا
در و دیوار سے چمکے تھا پڑا آب طلا
سیم چونے کی جگہ اس کی تھا اینٹوں میں لگا
واہ وا کر کے کہا میں نے یہ ہوگا کس کا
عقل نے جب مجھے چپکے سے کہا پیسے کا
روٹھا عاشق سے جو معشوق کوئی ہٹ کا بھرا
اور وہ منت سے کسی طور نہیں ہے منتا
خوبیاں پیسے کی اے یارو کہوں میں کیا کیا
دل اگر سنگ سے بھی اس کا زیادہ تھا کڑا
موم سا ہو گیا جب نام سنا پیسے کا
جس گھڑی ہوتی ہے اے دوستو پیسے کی نمود
ہر طرح ہوتی ہے خوش وقتئ و خوبی بہبود
خوش دلی تازگی اور خرمی کرتی ہے درود
جو خوشی چاہیئے ہوتی ہے وہیں آ موجود
دیکھا یارو تو یہ ہے عیش و مزا پیسے کا
پیسے والے نے اگر بیٹھ کے لوگوں میں کہا
جیسا چاہوں تو مکاں ویسا ہی ڈالوں بنوا
حرف تکرار کسی کی جو زباں پر آیا
اس نے بنوا کے دیا جلدی سے ویسا ہی دکھا
اس کا یہ کام ہے اے دوستو یا پیسے کا
ناچ اور راگ کی بھی خوب سی تیاری ہے
حسن ہے ناز ہے خوبی ہے طرح داری ہے
ربط ہے پیار ہے اور دوستی ہے یاری ہے
غور سے دیکھا تو سب عیش کی بسیاری ہے
روپ جس وقت ہوا جلوہ نما پیسے کا
دام میں دام کے یارو جو مرا دل ہے اسیر
اس لیے ہوتی ہے یہ میری زباں سے تقریر
جی میں خوش رہتا ہے اور دل بھی بہت عیش پذیر
جس قدر ہو سکا میں نے کیا تحریر نظیرؔ
وصف آگے میں لکھوں تا بہ کجا پیسے کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse