پیری میں دل شباب کا خواہاں کہاں رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیری میں دل شباب کا خواہاں کہاں رہا  (1911) 
by وفا لکھنوی

پیری میں دل شباب کا خواہاں کہاں رہا
افلاس میں عروج کا ارماں کہاں رہا

سجدہ کیا بتوں کو تو ایماں کہاں رہا
اے بندۂ خدا تو مسلماں کہاں رہا

اعمال بد پہ اپنے جو رویا دم فنا
میرا سیاہ نامۂ عصیاں کہاں رہا

منصور نے کہا جو انا الحق ہوا نہ ضبط
سب راز فاش ہو گیا پنہاں کہاں رہا

رندوں کو پیٹھ پیچھے برا کہہ رہا ہے تو
واعظ مجھے بتا تو مسلماں کہاں رہا

رفتار یار دیکھ کے نادم ہوا کہاں
کبک دری چمن میں خراماں کہاں رہا

ان سے ضیائے چہرۂ جاناں جو دیکھ لے
تابندہ چرخ پر مہ تاباں کہاں رہا

اللہ رے زور دست جنوں کا بہار میں
سالم ہر ایک تار گریباں کہاں رہا

فصل بہار میں تھا یہ میرے جنوں کا زور
دامن کہاں رہا ہے گریباں کہاں رہا

نکلی جو روح جسم سے بیگانہ ہو گئی
تھا جو کہ اتحاد تن و جاں کہاں رہا

سنتے ہی عیب اور ہنر اس کا دیکھ لے
ایسی صفت کا کوئی سخنداں کہاں رہا

موسیٰ کو طور پر جو تجلی نظر پڑی
وارفتگی میں ہوش کا ساماں کہاں رہا

نظارہ روز کرتا تھا روئے نگار کا
پوشیدہ میری آنکھ سے قرآں کہاں رہا

سمجھے ہیں گھر خدا کا یہ بت خانہ وہ حرم
پھر اتفاق کفر و مسلماں کہاں رہا

کانٹوں میں پھنس کے ہو گیا صد چاک شکل گل
سالم بہار میں مرا داماں کہاں رہا

شمع سحر کی طرح سے بے نور ہو گیا
پیری میں داغ عشق نمایاں کہاں رہا

ہو نکتہ سنجیوں سے تری شاد اے وفاؔ
ایسا جہاں میں کوئی سخنداں کہاں رہا

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse