پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے
by حیدر علی آتش

پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے
وہ قد جو الف سا تھا سو اب دال ہوا ہے

مقبول مرے قول سے قوال ہوا ہے
صوفی کو غزل سن کے مری حال ہوا ہے

ان ہاتھوں کی دولت سے کڑا مال ہوا ہے
ان پاؤں سے آوازۂ خلخال ہوا ہے

المنۃ و للہ بہ صد منت ادھر سے
انکار تھا جس شے کا اب اقبال ہوا ہے

جب قتل کیا ہے کسی عاشق کو تو واں سے
جلاد کی تلوار کو رومال ہوا ہے

کس عقدے کو اس زلف کی کھولا نہیں ہم نے
سلجھایا ہے الجھا ہوا جو بال ہوا ہے

کس سر کو نہیں یار کی رفتار کا سودا
معراج وہ سمجھا ہے جو پامال ہوا ہے

بیمار رہا برسوں میں عیسیٰ نفسوں میں
پوچھا نہ کسی نے کبھی کیا حال ہوا ہے

اے ابر کرم تو ہی سفید اس کو کرے گا
برسوں میں سیہ نامۂ اعمال ہوا ہے

جو ناز کرے یار سزاوار ہے آتشؔ
خوش رو و خوش اسلوب و خوش اقبال ہوا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse