پیتے ہیں مے گناہ بہ قصد ثواب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیتے ہیں مے گناہ بہ قصد ثواب ہے
by نسیم دہلوی

پیتے ہیں مے گناہ بہ قصد ثواب ہے
مستی کے ولولے ہیں زمان شباب ہے

اے چارہ گر ندامت بے جا نہ لیجیو
دل چاک ہو چکا ہے جگر آب آب ہے

زاہد معاف ضبط طبیعت نہیں ہمیں
ساغر چھلک رہے ہیں ہواے شباب ہے

بیداریاں ہیں دیدۂ زنجیر کی طرح
وہ آنکھ ہے ازل سے جو محروم خواب ہے

اے شور حشر ٹھہر کہ فرصت نہیں ہمیں
ہیں غفلتوں کے جوش جوانی کا خواب ہے

اے شیخ طول ریش مقدس گھٹائیے
حد سے زیادہ جو ہے اسی پر عذاب ہے

اے بے خبر قریب ہے فرداۓ باز پرس
ہشیار ہو کہ جلد زمان حساب ہے

دیکھا نگاہ غور سے ہم نے جو اے نسیمؔ
ہر شعر اس غزل کا تری انتخاب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse