پیام آزادی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیام آزادی
by احمق پھپھوندوی

مقام حق ہے بلا شک مقام آزادی
بلند عرش سے بھی کچھ ہے بام آزادی

نہ ہو سکے گا کبھی محترم جہاں میں تو
جو تیرے دل میں نہیں احترام آزادی

سنا رہا ہے تجھے انقلاب دہر جو کچھ
سن اور غور سے سن وہ پیام آزادی

کہاں تلک یہ تباہی کی زندگی غافل
اٹھ اور جلد بنا اک نظام آزادی

اٹھ اور ہاتھ میں لے تیغ بے نیام عمل
کہ ہے وسیلۂ‌ فوز و مرام آزادی

یہ زندگی ہے تری موت سے سوا بد تر
خدا کے واسطے کر اہتمام آزادی

غلط ہے یہ جو غلامانہ ذہنیت کے ساتھ
پکا رہا ہے تو سودائے خام آزادی

پکار یوں تری ہرگز سنی نہ جائے گی
زبان تیغ سے کر بس کلام آزادی

وطن سے لعنت سرمایہ کو فنا کر دے
جو چاہتا ہے بقائے دوام آزادی

ہٹا دے پردۂ تاریک جبر و استبداد
کہ نور بار ہو ماہ تمام آزادی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse