پیامی کامیاب آئے نہ آئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیامی کامیاب آئے نہ آئے
by داغ دہلوی

پیامی کامیاب آئے نہ آئے
خدا جانے جواب آئے نہ آئے

ترے غمزوں کو اپنے کام سے کام
کسی کے دل کو تاب آئے نہ آئے

اسے شرمائیں گے ذکر عدو پر
یہ قسمت ہے حجاب آئے نہ آئے

تم آؤ جب سوار تو سن ناز
قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے

شمار اپنی خطاؤں کا بتا دوں
تمہیں شاید حساب آئے نہ آئے

نئے خنجر سے مجھ کو ذبح کیجے
پھر ایسی آب و تاب آئے نہ آئے

شب وصل عدو تیری بلا سے
کسی مضطر کو خواب آئے نہ آئے

پیوں گا آج ساقی سیر ہو کر
میسر پھر شراب آئے نہ آئے

یہ جا کر پوچھ آ تو ان سے درباں
کہ وہ خانہ خراب آئے نہ آئے

نہ دیکھو داغؔ کا دیوان دیکھو
سمجھ میں یہ کتاب آئے نہ آئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse