پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
by احمد حسین مائل

پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
آئینہ دیکھ کے منہ چوم لیا کرتے ہیں

وصل کا لطف مجھے وصل سے پہلے ہی ملا
جب کہا یار نے گھبرا کے یہ کیا کرتے ہیں

اس قدر تھا مجھے الفت میں بھروسا ان پر
کی جفا بھی تو یہ سمجھا کہ وفا کرتے ہیں

ہے یہی عرض خدا سے کہ فلاں بت مل جائے
وہی اچھے جو نمازوں میں دعا کرتے ہیں

لب کسی کے جو ہلے کان ادھر دھیان ادھر
دل لگا کر وہ مرا ذکر سنا کرتے ہیں

صبح کو دیکھ کے آئینہ میں بوسے کا نشاں
مسکراتے ہوئے ہونٹوں میں گلا کرتے ہیں

کیسے کیسے مجھے بے ساختہ ملتے ہیں خطاب
غصہ آتا ہے تو کیا کیا وہ کہا کرتے ہیں

کیا ہوا مجھ کو رقیبوں نے اگر دی تعظیم
تیری محفل میں تو فتنے ہی اٹھا کرتے ہیں

کان باتوں کی طرف آنکھ ہے کاموں کی طرف
ہو کے انجان مرا ذکر سنا کرتے ہیں

چین پیشانی پہ ہے موج تبسم لب میں
ایسے ہنس مکھ ہیں کہ غصے میں ہنسا کرتے ہیں

بس تو چلتا نہیں کچھ کہہ کے انہیں کیوں ہوں ذلیل
ہم تو اپنا ہی لہو آپ پیا کرتے ہیں

اس اشارے کے فدا ایسے تجاہل کے نثار
مار کر آنکھ وہ منہ پھیر لیا کرتے ہیں

جلسے ہی جلسے ہیں جب سے وہ ہوئے خود مختار
کوئی اتنا نہیں کہتا کہ یہ کیا کرتے ہیں

عاشقانہ ہے عقیدہ بھی ہمارا مائلؔ
لے کے ہم نام بتاں ذکر خدا کرتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse