پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے
by منیرؔ شکوہ آبادی

پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے
کس سے ملا ہے شیشۂ دل ہم سے پھوٹ کے

حسن ملیح کا نہ کیا زخمیوں نے شکر
اے کردگار نکلے نمک پھوٹ پھوٹ کے

سر پھوڑ کر موے جو ترے سنگ در سے ہم
رہ رہ گئے حسین بھی ماتھوں کو کوٹ کے

بے نور ہونے پر بھی وہی جوش گریہ ہے
آنکھیں ہماری اور بہیں پھوٹ پھوٹ کے

اے رشک ماہ رات کو مٹھی نہ کھولنا
مہندی کا چور ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ کے

تدبیر زہر دینے کی ہے پائمالوں کو
ہیرے لگائے جاتے ہیں پنوں میں بوٹ کے

دل لے کے پلکیں پھر گئیں زلفوں کی آڑ میں
الٹی پھری یہ فوج سر شام لوٹ کے

موزوں کریں گے وصف دکھاؤ پھکیتیاں
جانے نہ پائیں ہاتھ سے مضمون چھوٹ کے

دیتے ہیں میرے سامنے غیروں کو خرپزے
باغ جہاں میں آپ ہیں مشتاق پھوٹ کے

کنگھی سے زلف الجھی تو دل ٹکڑے ہو گیا
آئینہ میں یہ بال پڑے ٹوٹ ٹوٹ کے

رفتار میں نہ کیوں ہو چمک رقص ناز کی
زہرہ بھی ہے شریک ستاروں میں لوٹ کے

اے رشک مہ جو زہرۂ گردوں کا بس چلے
توڑے تمہارے ناچ کے لے جائے لوٹ کے

نقد حیات و جامۂ تن چھینتی ہے کیوں
اے موت کیا کرے گی مسافر کو لوٹ کے

عنبر کے بدلے مشک ہے موج خرام میں
زلفوں کے بال مل گئے فیتے سے لوٹ کے

افشاں جو چھوٹی آپ کے ماتھے سے رات کو
تارے گرے زمیں پر اے ماہ ٹوٹ کے

رو رو کے روح جسم سے کہتی ہے وقت نزع
اے گھر ملیں گے دیکھیے کب تجھ سے چھوٹ کے

مجھ کو نہیں پسند یہ فرمائش اے منیرؔ
کیوں جھوٹ باندھوں قافیوں میں ٹوٹ پھوٹ کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse