پہلے تو مجھے کہا نکالو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پہلے تو مجھے کہا نکالو
by امیر مینائی

پہلے تو مجھے کہا نکالو
پھر بولے غریب ہے بلا لو

بے دل رکھنے سے فائدہ کیا
تم جان سے مجھ کو مار ڈالو

اس نے بھی تو دیکھی ہیں یہ آنکھیں
آنکھ آرسی پر سمجھ کے ڈالو

آیا ہے وہ مہ بجھا بھی دو شمع
پروانوں کو بزم سے نکالو

گھبرا کے ہم آئے تھے سوئے حشر
یاں پیش ہے اور ماجرا لو

تکیے میں گیا تو میں پکارا
شب تیرہ ہے جاگو سونے والو

اور دن پہ امیرؔ تکیہ کب تک
تم بھی تو کچھ آپ کو سنبھالو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse