پہلو کو ترے عشق میں ویراں نہیں دیکھا
پہلو کو ترے عشق میں ویراں نہیں دیکھا
اس دل کو کبھی خالی از ارماں نہیں دیکھا
صورت کو مری دیکھ کے حیرت ہے تمہیں کیا
تم نے تو مرا حال پریشاں نہیں دیکھا
موسیٰ ہوئے بے ہوش تجلئ لقا سے
طالب تھے مگر جلوۂ جاناں نہیں دیکھا
روتے ہیں گناہوں پہ وہی جن میں ہے ایماں
کافر کو کبھی ہم نے پشیماں نہیں دیکھا
دیکھا جو مرا داغ جگر ہنس کے وہ بولے
ایسا تو چراغ تہ داماں نہیں دیکھا
اے درد جگر چین ذرا لینے دے مجھ کو
تجھ سا بھی کوئی جان کا خواہاں نہیں دیکھا
سر کٹ کے گرا شوق سے قاتل کے قدم پر
ایسا بھی کوئی بندۂ احساں نہیں دیکھا
رونے پہ مری تم کو تحیر یہ عبث ہے
کیا تم نے کبھی ابر کو گریاں نہیں دیکھا
دیکھی ہے بہت آپ نے آئینہ کی حیرت
عاشق کا مگر دیدۂ حیراں نہیں دیکھا
سرگشتہ وہ صحرائے مصیبت میں نہ ہوگا
جس نے تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
پوچھا جو جمیلہؔ سے تو وہ مجھ سے یہ بولے
دل سا تو کوئی دوسرا ایواں نہیں دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |