پھیر روز فراق یار آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھیر روز فراق یار آیا
by قاسم علی خان آفریدی

پھیر روز فراق یار آیا
نامہ بر آہ زار زار آیا

تیرے جانے سے فتنہ ہو تیار
بہ سر چشم اشک بار آیا

جھاڑا مرقد پہ میرے جب دامن
آسماں کا گویا غبار آیا

مے سے توبہ تو کر نہیں سکتا
کیا کروں موسم بہار آیا

مارا جاوے گا بھاگ اے ناصح
دیکھ یہ نازنیں سوار آیا

کسی مخلوق کو خدا نہ دکھائے
جو کہ مجھ پر در انتظار آیا

اس کی بیداد کا خدا دے اجر
ہاتھ میں لے کے ذو الفقار آیا

کہتا ہے سر جھکا جو عاشق ہے
میں تو اب مائل شکار آیا

آفریدیؔ سمجھ حیات ابد
قتل کو تیرے گر وہ یار آیا

پیشوائی کو اس کی جا جلدی
کہہ کہ حاضر گناہ گار آیا

تجھے قاسمؔ علی خدا کی قسم
کیسے ظالم پہ اعتبار آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse