پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا
by آرزو لکھنوی

پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا
خندۂ گل سے اڑا وہ شرارہ خرمن دل پر پھول پڑا

دیکھ ادھر او نیند کے ماتے کس کی اچانک یاد آئی
بیچ سے ٹوٹی ہے انگڑائی ہاتھ اٹھتے ہی جھول پڑا

حسن و عشق کی ان بن کیا ہے دل کے پھنسانے کا پھندا
اپنے ہاتھوں خود آفت میں جا کے یہ نامعقول پڑا

کون کہے قسمت پلٹی یا مت پلٹی سیلانی کی
رستہ کاٹ کے جانے والا آج ادھر بھی بھول پڑا

حال نہیں جینے کے قابل آس نہیں مرنے دیتی
ایڑیاں رگڑے آخر کب تک خاک پر اک مقتول پڑا

جتنے حسن آباد میں پہنچے ہوش و خرد کھو کر پہنچے
مال بھی تو اتنے کا نہیں اب جتنا کچھ محصول پڑا

راہ وفا تھی ٹیڑھی بگڑی تھی ہر گام افتاد نئی
پاؤں کسی کا ٹوٹ گیا اور ہاتھ کسی کا جھول پڑا

باغ میں گلچیں ہے نہ ہے مالی بجلی ہے نہ فلک پہ سحاب
عہد خزاں میں جلا ہے نشیمن آ کے کہاں سے پھول پڑا

پاؤں کی طاقت طاق ہوئی تو بند کی آنکھ اور جا پہنچے
آرزوؔ اس کو خوب کیا کم راستے میں جو طول پڑا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse