پھونک دے ہے منہ ترا ہر صاف دل کے تن میں آگ
Appearance
پھونک دے ہے منہ ترا ہر صاف دل کے تن میں آگ
سامنے خورشید کے لگتی ہے جو درپن میں آگ
تجھ سے اے بلبل زیادہ گل میں ہے تاثیر عشق
دل میں خوں لب پر ہنسی ہے اس کے پیراہن میں آگ
اہل زر ساز رعونت سے ہوویں گے دوزخی
ڈالتے ہیں شمع کی اول رگ گردن میں آگ
کوہ کن لالہ سے خوں تیرا ہے جوشاں بعد سال
بے ستوں کے دیکھ دائم ہے بھری دامن میں آگ
سوز ہجر کانہا سے جو سانولا تھا عزلتؔ آہ
داغ دار آخر لگی ٹیسو کے بندرابن میں آگ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |