پھونکی تپ فراق نے یہ تن بدن میں آگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھونکی تپ فراق نے یہ تن بدن میں آگ
by شاہ اکبر داناپوری

پھونکی تپ فراق نے یہ تن بدن میں آگ
اب جسم کی جگہ ہے مرے پیرہن میں آگ

انگاروں پہ لٹاتی ہے فرقت میں سیر باغ
ہو میرا اختیار تو دے دوں چمن میں آگ

ابر سیہ نہیں یہ دھواں ہے بھرا ہوا
کس نے لگا دی آج سپہر کہن میں آگ

کشتے ہیں تیرے رخ کے جوئے آتشیں عذار
لے جائیں گے وہ باندھ کر اپنے کفن میں آگ

رخصت ہوئی بہار خزاں کے دن آ گئے
اے باغباں لگا دے اب اپنے چمن میں آگ

صحرا ہماری گرمئ رفتار سے پھنکا
دیوانوں کے قدم سے لگ اٹھی چمن میں آگ

کس نے کیا ترے لب لعلیں کا تذکرہ
اہل یمن نے آپ لگا دی یمن میں آگ

زلفوں سے یوں عیاں ہے ترا روئے آتشیں
جیسے لگی ہو وادیٔ چین و ختن میں آگ

اکبرؔ تری زبان ہے کیا شمع کی زبان
ہر فقرہ تیرا شعلہ ہے ہے ہر سخن میں آگ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse