پھل ہے اس بت کی آشنائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھل ہے اس بت کی آشنائی کا
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

پھل ہے اس بت کی آشنائی کا
مجھ کو دعویٰ ہے اب خدائی کا

نہ لڑاؤ نظر رقیبوں سے
کام اچھا نہیں لڑائی کا

آسماں پر نہیں ہلال نمود
نعل ہے تیری زیر پائی کا

گل میں تھی اس قدر کہاں سرخی
عکس ہے پنجۂ حنائی کا

کس ستم گر سے تو نے اے کافر
طرز سیکھا ہے دل ربائی کا

چادر آسمان حاضر ہو
تو جو استر کرے رضائی کا

وقت کیا آ گیا ہے صد افسوس
بھائی دشمن ہوا ہے بھائی کا

گو برہمن پسر وہ قاتل ہے
دل ملا ہے مگر قصائی کا

کچھ مرا ہی نہیں وہ بت معبود
بخدا ہے خدا خدائی کا

سحرؔ کیا اس نے کر دیا جادو
مجھ کو دعویٰ تھا پارسائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse