پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں
by امداد علی بحر

پھل آتے ہیں پھول ٹوٹتے ہیں
خردوں سے بزرگ چھوٹتے ہیں

کھلتی نہیں گل کی بد مزاجی
غنچے نہیں منہ سے پھوٹتے ہیں

کرتے ہیں یہاں حسیں تاراج
نباش لحد میں لوٹتے ہیں

ہوتا ہے فراق جان و تن میں
بروں کے ملاپ چھوٹتے ہیں

اک بت سے معاملہ درپیش
پتھر سے نصیب پھوٹتے ہیں

آسیب ہیں گیسوان معشوق
کب ہم سے لپٹ کے چھوٹتے ہیں

دل لے کے وہ جان کے ہیں خواہاں
ہر پہر کے مجھی کو لوٹتے ہیں

ہر وقت ہے کوفت اپنے دل کو
رہ رہ کر سینہ کوٹتے ہیں

خط پڑھتا ہے میرا کیا کہوں کون
اغیار کی دید سے پھوٹتے ہیں

رونے دھونے سے فائدہ بحرؔ
کب سینے کے داغ چھوٹتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.