پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
by اکبر الہ آبادی

پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی
یہ وفا کیسی تھی صاحب یہ مروت کیسی

دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات
رند آزاد ہیں ہم کو شب فرقت کیسی

جس حسیں سے ہوئی الفت وہی معشوق اپنا
عشق کس چیز کو کہتے ہیں طبیعت کیسی

ہے جو قسمت میں وہی ہوگا نہ کچھ کم نہ سوا
آرزو کہتے ہیں کس چیز کو حسرت کیسی

حال کھلتا نہیں کچھ دل کے دھڑکنے کا مجھے
آج رہ رہ کے بھر آتی ہے طبیعت کیسی

کوچۂ یار میں جاتا تو نظارہ کرتا
قیس آوارہ ہے جنگل میں یہ وحشت کیسی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse