پھر ملے ہم ان سے پھر یاری بڑھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر ملے ہم ان سے پھر یاری بڑھی
by مبارک عظیم آبادی

پھر ملے ہم ان سے پھر یاری بڑھی
اور الجھا دل گرفتاری بڑھی

مہربانی چارہ سازوں کی بڑھی
جب بڑھا درماں تو بیماری بڑھی

ہجر کی گھڑیاں کٹھن ہوتی گئیں
دن کے نالے رات کی زاری بڑھی

پھر تصور میں کسی کے نیند اڑی
پھر وہی راتوں کی بے داری بڑھی

سختیاں راہ محبت کی نہ پوچھ
ہر قدم اک تازہ دشواری بڑھی

خیر ساقی کی سلامت مے کدہ
جس قدر پی اتنی ہشیاری بڑھی

دور دورے ہیں مبارکؔ جام کے
انتہا کی اپنی مے خواری بڑھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse