پھر مجھے لکھنا جو وصف روئے جاناں ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر مجھے لکھنا جو وصف روئے جاناں ہو گیا
by بھارتیندو ہریش چندر

پھر مجھے لکھنا جو وصف روئے جاناں ہو گیا
واجب اس جا پر قلم کو سر جھکانا ہو گیا

سرکشی اتنی نہیں ظالم ہے او زلف سیہ
بس کہ تاریک اپنی آنکھوں میں زمانہ ہو گیا

دھیان آیا جس گھڑی اس کے دہان تنگ کا
ہو گیا دم بند مشکل لب ہلانا ہو گیا

اے ازل جلدی رہائی دے نہ بس تاخیر کر
خانۂ تن بھی مجھے اب قید خانہ ہو گیا

آج تک آئینہ وش حیران ہے اس فکر میں
کب یہاں آیا سکندر کب روانہ ہو گیا

دولت دنیا نہ کام آئے گی کچھ بھی بعد مرگ
ہے زمیں میں خاک قاروں کا خزانہ ہو گیا

بات کرنے میں جو لب اس کے ہوئے زیر و زبر
ایک ساعت میں تہہ و بالا زمانہ ہو گیا

دیکھ لی رفتار اس گل کی چمن میں کیا صبا
سرو کو مشکل قدم آگے بڑھانا ہو گیا

جان دی آخر قفس میں عندلیب زار نے
مژدہ ہے صیاد ویراں آشیانہ ہو گیا

زندہ کر دیتا ہے اک دم میں یہ عیسائے نفس
کھیل اس کو گویا مردے کو جلانا ہو گیا

توسن عمر رواں دم بھر نہیں رکتا رساؔ
ہر نفس گویا اسی کا تازیانہ ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse