پھر شب غم نے مجھے شکل دکھائی کیونکر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر شب غم نے مجھے شکل دکھائی کیونکر
by داغ دہلوی

پھر شب غم نے مجھے شکل دکھائی کیونکر
یہ بلا گھر سے نکالی ہوئی آئی کیونکر

کٹ سکے سختی ایام جدائی کیونکر
غیر کو آئے الٰہی مری آئی کیونکر

تو نے کی غیر سے کل میری برائی کیونکر
گر نہ تھی دل میں تو لب پر ترے آئی کیونکر

نہ کہوں گا نہ کہوں گا نہ کہوں گا ہرگز
جا کے اس بزم میں شامت مری آئی کیونکر

کھل گئی بات جب ان کی تو وہ پوچھتے ہیں
منہ سے نکلی ہوئی ہوتی ہے پرائی کیونکر

دادخواہوں سے وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی تو سنیں
دوگے تم حشر میں سب مل کے دہائی کیونکر

تم دل آزار و ستم گر نہیں میں نے مانا
مان جائے گی اسے ساری خدائی کیونکر

ناگہاں شکوۂ بیداد تو کر بیٹھے ہم
اب یہ ہے فکر کریں ان سے صفائی کیونکر

آپ میں بھی تو رہی آتش تر کی تیزی
آگ پانی میں یہ ساقی نے لگائی کیونکر

اللہ اللہ بتوں کو ہے یہ دست قدرت
ان کی مٹھی میں رہی ساری خدائی کیونکر

وہ یہاں آئیں وہاں غیر کا گھر ہو برباد
اس طرح سے ہو صفائی میں صفائی کیونکر

مجلس وعظ کو دیکھا تو کہا رندوں نے
ہوگی اس بھیڑ کی جنت میں سمائی کیونکر

آئینہ دیکھ کر وہ کہنے لگے آپ ہی آپ
ایسے اچھوں کی کرے کوئی برائی کیونکر

کثرت رنج و الم سن کے یہ الزام ملا
اتنے سے دل میں ہے اتنوں کی سمائی کیونکر

اس نے صدقے میں کئے آج ہزاروں آزاد
دیکھیے ہوتی ہے عاشق کی رہائی کیونکر

داغؔ کو مہر کہا اشک کو دریا ہم نے
اور پھر کرتے ہیں چھوٹوں کی بڑائی کیونکر

داغؔ کل تو دعا آپ کی مقبول نہ تھی
آج منہ مانگی مراد آپ نے پائی کیونکر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse