پھر دیکھتے عیش آدمی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر دیکھتے عیش آدمی کا
by داغ دہلوی

پھر دیکھتے عیش آدمی کا
بنتا جو فلک مری خوشی کا

گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوس لیا کلی کلی کا

تیرا بھی تو حسن ہے دغاباز
ہوتا ہی نہیں کوئی کسی کا

اتنی ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا

ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا

تم کوچہ غیر میں نہ جانا
اس راہ میں ہے گزر کسی کا

کس کس نے لئے ہیں تیرے بوسے
ہے لعل نمک فشاں جو پھیکا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارہ سودا ہے جیتے جی کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا

روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا

کہتے ہیں اسے زبان اردو
جس میں نہ ہو رنگ فارسی کا

ایسے سے جو داغؔ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse