پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا
by مختار صدیقی

پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا
زخم دیرینہ سے پھر خون ٹپکتا ہوگا

بیتی باتوں کے وہ ناسور ہرے پھر ہوں گے
بات نکلے گی تو پھر بات کو رکھنا ہوگا

یورشیں کر کے امنڈ آئیں گی سونی شامیں
لاکھ بھٹکیں کسی عنواں نہ سویرا ہوگا

جی کو سمجھائیں گے متوالی ہوا کے جھونکے
پھر کوئی لاکھ سنبھالے نہ سنبھلنا ہوگا

کیسی رت آئی ہوا چلتی ہے جی ڈولتا ہے
اب تو ہنسنا بھی تڑپنے کا بہانا ہوگا

ٹوٹ جائے گا یہ لاچارئی دائم کا فسوں
اور اس طرح کہ جیسے کوئی آتا ہوگا

دل دھڑکنے کی صدا آئے گی سونے پن میں
دور بادل کہیں پربت پہ گرجتا ہوگا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse