پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
by نسیم دہلوی

پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
وہی مصیبت اٹھا رہے ہیں کہ جو مصیبت اٹھا چکے تھے

کہو جو بے جا بجا ہے مجھ کو سزا ہے جو ناسزا ہے مجھ کو
کہ ان کا رونا پڑا ہے مجھ کو جو مدتوں تک رلا چکے تھے

جو ان کی خو تھی سو ان کی خو ہے جو گفتگو تھی سو گفتگو ہے
پھر ان پہ مٹنے کی آرزو ہے جو ہر طرح سے مٹا چکے تھے

عدو کا میں ہوں عدو مقرر برابر آ کے ہوئے برابر
بھلا بدلتا نہ رنگ کیوں کر وہ رنگ اپنے جما چکے تھے

کسی سے کوئی نہ دل لگائے نسیمؔ کیا کیفیت بتائے
وہی اب آنسو بہانے آئے لہو جو میرا بہا چکے تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse