پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے
پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے
کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے
سچ پوچھو تو کب ہے گا اس کا سا دہن غنچہ
تسکیں کے لیے ہم نے اک بات بنا لی ہے
دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا
ترکیب سے کیا کہیے سانچے میں کی ڈھالی ہے
ہم قد خمیدہ سے آغوش ہوئے سارے
پر فائدہ تجھ سے تو آغوش وہ خالی ہے
عزت کی کوئی صورت دکھلائی نہیں دیتی
چپ رہیے تو چشمک ہے کچھ کہیے تو گالی ہے
دو گام کے چلنے میں پامال ہوا عالم
کچھ ساری خدائی سے وہ چال نرالی ہے
ہے گی تو دو سالہ پر ہے دختر رز آفت
کیا پیر مغاں نے بھی اک چھوکری پالی ہے
خوں ریزی میں ہم سوں کی جو خاک برابر ہیں
کب سر تو فرو لایا ہمت تری عالی ہے
جب سر چڑھے ہوں ایسے تب عشق کریں سو بھی
جوں توں یہ بلا سر سے فرہاد نے ٹالی ہے
ان مغبچوں میں زاہد پھر سر زدہ مت آنا
مندیل تری اب کے ہم نے تو بچا لی ہے
کیا میرؔ تو روتا ہے پامالیٔ دل ہی کو
ان لونڈوں نے تو دلی سب سر پہ اٹھا لی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |