پھر آئی فصل گل پھر زخم دل رہ رہ کے پکتے ہیں
Appearance
پھر آئی فصل گل پھر زخم دل رہ رہ کے پکتے ہیں
مگر داغ جگر پر صورت لالہ لہکتے ہیں
نصیحت ہے عبث ناصح بیاں ناحق ہی بکتے ہیں
جو بہکے دخت رز سے ہیں وہ کب ان سے بہکتے ہیں
کوئی جا کر کہو یہ آخری پیغام اس بت سے
ارے آ جا ابھی دم تن میں باقی ہے سسکتے ہیں
نہ بوسہ لینے دیتے ہیں نہ لگتے ہیں گلے میرے
ابھی کم عمر ہیں ہر بات پر مجھ سے جھجکتے ہیں
وہ غیروں کو ادا سے قتل جب بے باک کرتے ہیں
تو اس کی تیغ کو ہم آہ کس حیرت سے تکتے ہیں
اڑا لائے ہو یہ طرز سخن کس سے بتاؤ تو
دم تقدیر گویا باغ میں بلبل چہکتے ہیں
رساؔ کی ہے تلاش یار میں یہ دشت پیمائی
کہ مثل شیشہ میرے پاؤں کے چھالے جھلکتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |