پھری ہے کیوں نگہ دل ربا نہیں معلوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھری ہے کیوں نگہ دل ربا نہیں معلوم  (1933) 
by منشی ٹھاکر پرساد طالب

پھری ہے کیوں نگہ دل ربا نہیں معلوم
ہے اس ادا میں بھی کس کی قضا نہیں معلوم

گلوں سے کس لئے بگڑی صبا نہیں معلوم
چلی یہ باغ میں کیسی ہوا نہیں معلوم

تمہیں پہ اپنی حیات و ممات کا ہے مدار
ہمیں تو اور کچھ اس کے سوا نہیں معلوم

طلب وہ کرتے ہیں آئینہ خیر ہو یا رب
بلا یہ لائے گا کیا دوسرا نہیں معلوم

تمہاری زلفیں ہیں بے طرح رات سے بل پر
کریں گی کس کو اسیر بلا نہیں معلوم

جلائے ہستیٔ عاشق کو یہ وہ شعلہ ہے
کچھ ان کو شوخیٔ رنگ حنا نہیں معلوم

ہمارے سامنے یکساں ہے رتبۂ رخ و زلف
ہمیں تفاوت صبح و مسا نہیں معلوم

سوال بوسہ تک ان سے کیا نہ ہم نے کبھی
وہ کس خطا پہ ہیں ہم سے خفا نہیں معلوم

بنا مزار بھی اپنا تو تیرے کوچے میں
مری وفا تجھے کیا بے وفا نہیں معلوم

جو راہ پوچھو تو کہتے ہیں رہروان عدم
بتائیں کیا ہمیں خود راستا نہیں معلوم

ہمارا حال بھی حیرت فزا ہے اے ہمدم
کہ اشک جاری ہیں اور ماجرا نہیں معلوم

خوشی یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں قتل کر کے مجھے
سزا تو دی ہے ولے کچھ خطا نہیں معلوم

مریض ہجر سے ضد ہے مرے مسیحا کو
وگرنہ کیا اسے اس کی دوا نہیں معلوم

ممانعت ہے جو طالبؔ کو بت پرستی کی
بنائے کعبہ تجھے شیخ کیا نہیں معلوم

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse