پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف
by نظم طباطبائی

پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف
چلا ہے چھوڑ کے بسمل مجھے ہرن کی طرف

بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ
نہ دیکھی راہ جو خلوت سے انجمن کی طرف

رہ وفا کو نہ چھوڑا وہ عندلیب ہوں میں
چھٹا قفس سے تو پرواز کی چمن کی طرف

گریز چاہئے طول امل سے سالک کو
سنا ہے راہ یہ جاتی ہے راہزن کی طرف

سرائے دہر میں سوؤ گے غافلو کب تک
اٹھو تو کیا تمہیں جانا نہیں وطن کی طرف

جو اہل دل ہیں الگ ہیں وہ اہل ظاہر سے
نہ میں ہوں شیخ کی جانب نہ برہمن کی طرف

جہان حادثہ آگین میں بشر کا ورود
گزر حباب کا دریائے موجزن کی طرف

اسی امید پہ ہم دن خزاں کے کاٹتے ہیں
کبھی تو باد بہار آئے گی چمن کی طرف

بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی
سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف

گواہ کون مرے قتل کا ہو محشر میں
ابھی سے سارا زمانہ ہے تیغ زن کی طرف

خبر دی اٹھ کے قیامت نے اس کے آنے کی
خدا ہی خیر کرے رخ ہے انجمن کی طرف

وہ اپنے رخ کی صباحت کو آپ دیکھتے ہیں
جھکے ہوئے گل نرگس ہیں یاسمن کی طرف

تمام بزم ہے کیا محو اس کی باتوں میں
نظر دہن کی طرف کان ہے سخن کی طرف

اسیر ہو گیا دل گیسوؤں میں خوب ہوا
چلا تھا ڈوب کے مرنے چہ ذقن کی طرف

یہ میکشوں کی ادا ابر تر بھی سیکھ گئے
کنار جو سے جو اٹھے چلے چمن کی طرف

زہے نصیب جو ہو کربلا کی موت اے نظمؔ
کہ اڑ کے خاک شفا آئے خود کفن کی طرف

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse