پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں
by داغ دہلوی

پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں
دیا نصیب نے اچھا جواب رستے میں

یہ سچ ہے راہ محبت بڑی ہے ٹیڑھی کھیر
نہ آئے خضر کبھی اس خراب رستے میں

بھٹکتے پھرتے ہیں اس رہ گزار میں عاشق
مسافروں کی ہے مٹی خراب رستے میں

گلی سے یار کی ہم اٹھ کے چل چکے تھے مگر
مچل گیا دل پر اضطراب رستے میں

وہ رستہ کاٹ کے چلتے ہیں اس لئے مجھ سے
کہ کچھ کہے نہ یہ خانہ خراب رستے میں

بغل میں داب کے لے چل عدم کو شیشۂ مے
ملے گی داغؔ نہ تجھ کو شراب رستے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse