پھاہا
گوپال کی ران پر جب یہ بڑا پھوڑا نکلا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔
گرمیوں کا موسم تھا۔ آم خوب ہوئے تھے۔ بازاروں میں، گلیوں میں، دکانداروں کے پاس، پھیری والوں کے پاس، جدھر دیکھو، آم ہی آم نظر آتے۔ لال، پیلے، سبز، رنگا رنگ کے۔۔۔ سبزی منڈی میں کھول کے حساب سے ہر قسم کے آم آتے تھے۔ اور نہایت سستے داموں فروخت ہو رہے تھے۔ یوں سمجھیے کہ پچھلے برس کی کسر پوری ہو رہی تھی۔
اسکول کے باہر چھوٹو رام پھل فروش سے گوپال نے ایک روز خوب جی بھر کے آم کھائے۔ اور جیب میں سے ایک مہینے کے بچائے ہوئے جتنے پیسے جمع تھے سب کے سب ان آموں پر خرچ کر دیے جن کے گودے اور رس میں شہد گھلا ہوا تھا۔
اس روز چھٹی کے وقت آم کھانے کے بعد انگلیاں چاٹتے ہوئے گوپال کو اسکول کے حلوائی سے دودھ کی لسّی پینے کا خیال آیا تھا۔ اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اس نے گنڈا رام حلوائی سے پاؤ بھر دودھ کی لسّی بنانے کو کہا بھی تھا۔ مگر حلوائی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا، ’’بابو گوپال، پہلا حساب چکا دو تو اور ادھار دوں گا، ورنہ نہیں۔‘‘
گوپال نے اگر آم نہ کھائے ہوتے، یا اگر اس کی جیب میں تھوڑے بہت پیسے ہوتے۔ تو وہ وہیں کھڑے کھڑے گنڈا رام کا حساب چکا دیتا۔ اور کچھ نہیں تو نقد دام دے کر لسّی کا وہ گلاس لے لیتا جس میں برف کا ٹکڑا اڈبکیاں لگا رہا تھا۔ اور جسے حلوائی نے بُرا سا منہ بنا کر اپنے پیچھے لوہے کے تھال پر رکھ دیا تھا۔ مگر گوپال کچھ بھی نہ کر سکا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چوتھے روز اس کی ران پر یہ بڑا پھوڑا نکل آیا۔ اور تین چار روز تک ابھرتا رہا۔
گوپال کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھاکہ کیا کرے۔ وہ پھوڑے سے اتنا پریشان نہیں تھا۔ جتنا اس کے درد سے۔۔۔ اور سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ پھوڑا دن بدن لال ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اور اس کے منہ پر بدن کی جھلی پھٹنا شروع ہو گئی تھی۔ بعض اوقات گوپال کو یہ معلوم ہوتا کہ پھوڑے کے اندر کوئی ہنڈیا اُبل رہی ہے۔ اور اس کے اندر سب کچھ ایک ہی اُبال میں نکلنا چاہتا ہے۔ یہ چیز اسے بہت پریشان کر رہی تھی۔ اور پھوڑے کی جسامت دیکھ کر ایک مرتبہ تو اسے ایسا معلوم ہوا تھا کہ اس کی جیب میں سے کانچ کی گولی نکل کر اس کی ران میں گھس گئی ہے۔
گوپال نے گھر میں پھوڑے کی بابت کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر پتا جی کو اس کا پتہ چل گیا۔ تو وہ اپنے تھانے کی مکھیوں کا سارا غصہ اسی پر نکالیں گے۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ اسے اس چھڑی سے پیٹنا شروع کر دیں جو تھوڑے روز ہوئے گردھاری وکیل کے منشی نے وزیر آباد سے انھیں تحفے کے طور پر لا کر دی تھی۔ ماں کا مزاج بھی کم گرم نہ تھا۔ وہ اگر اسے آم کھانے کے جرم کی سزا نہ دیتی تو اس غلطی پر اس کے کان کھینچ کھینچ کر ضرور لال کر دیتی کہ اس نے گھر کے باہر اکیلے اکیلے آم کیوں اڑائے۔ اس کی ماں کا اصول تھا کہ ’’گوپال اگر تجھے زہر بھی کھانا ہو تو گھر میں کھانا۔‘‘ گوپال اچھی طرح جانتا تھا کہ اس اصول کے پیچھے اس کی ماں کی صرف یہ خواہش تھی کہ گوپال کے منہ کے ساتھ اس کا منہ بھی چلتا رہے۔
کچھ بھی ہو گوپال کی ران پر پھوڑا نکلنا تھا، نکل آیا۔ اس کا باعث جہاں تک گوپال سمجھ سکا تھا، وہی آم تھے۔ اس نے پھوڑے کی بابت گھر میں کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ اس کو اپنے پتا جی کی وہ ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی جو غسل خانے کے اندر بتائی گئی تھی۔ اس کے پتا جی لالہ پرشو تم داس تھانے دار لنگوٹ باندھے نل کی دھار کے نیچے اپنی گنجی چندیا رکھے اور بڑی توند بڑھائے مونچھوں میں سے آم کا رس چوس رہے تھے۔ سامنے بالٹی میں ایک درجن کے قریب آم پڑے تھے جو انھوں نے صبح سویرے ایک ٹھیلے والے سے اس کا چالان کاٹ کر حاصل کیے تھے۔ گوپال باپ کی پیٹھ مل رہا تھا اور میل کی مروڑیاں بنا رہا تھا۔ جب اس نے ہاتھ صاف کرنے کے لیے بالٹی میں ڈالے تھےاور چپکے سے ایک آم اڑانا چاہا تھاتو لالہ جی نے بڑے زور سے اس کا ہاتھ جھٹک کر چھوٹے سے آم کو مونچھوں سمیت منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تھا، ’’بے شرم۔۔۔تجھے بڑوں کا لحاظ کرنا جانے کب آئے گا؟‘‘
اور جب گوپال نے رونی صورت بنا کر کہا تھا، ’’پتا جی۔۔۔ آم کھانے کو میرا بھی تو جی چاہتا ہے۔ ‘‘تو تھانیدار صاحب نے آم کی گٹھلی چوس کر موری میں پھینکتے ہوئے کہا تھا، ’’گوپو، تیرے لیے یہ آم بہت گرم تھا۔ پھوڑے پھنسیاں چاہتا ہے تو بیشک کھا لے۔۔۔ دو تین بارشیں اور ہو لینے دے، پھر خوب ٹھاٹ سے کھائیو تیری ماں سے کہوں گا وہ لسّی بنا دے گی۔۔۔ چل اب پیٹھ مل۔‘‘ اور گوپال نے یہ رکاوٹ کی بات سن کر خاموشی سے اپنے پتا کی پیٹھ ملنا شروع کر دی تھی اور آم کی مٹھاس نے جو پانی اس کے منہ میں بھر دیا تھا،اسے دیر تک نگلتا رہا تھا۔
اس کے دوسرے روز اس نے آم کھائے اور چوتھے روز اس کی ران پر پھوڑا نکل آیا۔ اس کے پتا کی بات سچی ثابت ہوئی۔
اب اگر گوپال گھر میں کسی سے اس پھوڑے کی بات کرتا تو ظاہر ہے کہ خوب پٹتا، یہی وجہ ہے کہ خاموش رہا۔ اور پھوڑے کا بڑھاؤ بند کرنے کی تدبیریں سوچتا رہا۔
ایک روز اس کے پتا جی تھانے سے واپسی پر جب گھر آئے۔ تو ان کے ہاتھ میں ایک لمبی سی بتّی تھی۔ گوپال کی ماں کو آواز دے کر انھوں نے یہ بتّی اس کے ہاتھ میں میں دے کر کہا، ’’لے، آج بڑے کام کی چیز لایا ہوں۔ بمبئی کا مرہم ہے سو دوائیوں کی ایک دوا ہے۔۔۔پھوڑے پھنسی کی بہار ہے۔ ذرا سا پھاہا پھوڑے پر لگا دو گی۔ یوں آرام آ جائے گا۔۔۔ یوں ۔بمبئی کا نخالص مرہم ہے۔ سنبھال کے رکھ۔‘‘
گوپال اپنی بہن نرملا کے ساتھ صحن میں گیند بلا کھیل رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب تھانیدار جی مرہم دے کر اپنی پتنی کو کچھ سمجھا رہے تھے۔ تو نرملا نے زور سے گیند پھینکی۔ گوپال کا دھیان باپ کی طرف تھا۔ گیند پھوڑے پر زور سے لگی۔ گوپال بلبلا اٹھا۔ لیکن درد کو اندر ہی اندر پی گیا۔ وہ اسکول میں ماسٹر ہری رام کے مشہور بید کی مار کھا کر درد سہنے کا عادی ہو چکا تھا۔
ادھر گوپال کے پھوڑے پر گیند لگی۔ ادھر اس کے باپ کی آواز بلند ہوئی، ’’ذرا سا پھاہے پر لیپ کرکے لگا دو گی۔۔۔ یوں آرام آ جائے گا۔۔۔یوں‘‘ اور یوں کے ساتھ اس کے باپ کی چٹکی نے گویا گوپال کے سوئے ہوئے دماغ کی چٹکی بھر لی۔ اس کو اپنے درد کا علاج معلوم ہو گیا۔
اس کی ماں نے مرہم کی بتّی سامنے دالان میں سلائی کی پٹاری میں رکھ دی۔ گوپال کو اچھی طرح معلوم تھا۔ کہ اس کی ماں عام طور پر سلائی کی پٹاری ہی میں سب سنبھالنے والی چیزیں رکھا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ سنبھالنے والی چیز وہ موچنا تھاجس سے اس کی ماں ہر دسویں پندرھویں روز اپنے تنگ ماتھے کے بال صاف کیا کرتی تھی۔ یہ بلاشک و شبہ سلائی کی پٹاری میں اس پڑیا سمیت موجود تھا جس میں کوئلوں کی سفید راکھ جمع رہتی تھی۔ جو اس کی ماں بال نوچ کر ماتھے پر لگایا کرتی تھی۔
تاہم گوپال نے اپنا اطمینان کرنے کے لیے گیند دالان میں پھینک دی اور اس کو پلنگ کے نیچے سے نکالتے ہوئے اپنی ماں کو سلائی کی پٹاری میں مرہم رکھتے دیکھ لیا۔
دوپہر کو اس نے اپنی بہن نرملا کو ساتھ ملا کر چھوٹی قینچی جس سے اس کا باپ انگلیوں کے ناخن کاٹتا تھا، مرہم کی بتّی اور اپنے باپ کے پاجامے سے بچا ہوا لٹھے کا وہ ٹکڑا حاصل کر لیا جس سے اس کی ماں ایک اور ٹکڑے کو ساتھ ملا کر شلوار کی میانی بنانا چاہتی تھی۔ دونوں یہ چیزیں لے کر اوپر کوٹھے پر چلے گئے۔ اور برساتی کے نیچے کوئلوں کی بوریوں کے پاس بیٹھ گئے۔ نرملا نے اپنی جیب سے لٹھے کا ٹکڑا نکال کر اپنی ران پر شلوار کے پھسلتے ہوئے ریشمی کپڑے پر پھیلا کر جب گوپال کی طرف اپنی ناچتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا تو اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ گیارہ برس کی یہ کمسن لڑکی جو دریائی سرکنڈے کی طرح نازک اور لچکیلی تھی، ایک بہت بڑے کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہی ہے۔ اس کا ننھا سا دل جو اس وقت تک صرف ماں باپ کی جھڑکیوں اور اپنی گڑیوں کے میلے ہوتے ہوئے چہروں کی فکر سے دھڑکا کرتا تھا، اب اپنے بھائی کی ران پر پھوڑا دیکھنے کے خیال سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے کان کی لویں لال اور گرم ہو گئی تھیں۔
گوپال نے گھر میں اپنے پھوڑے کی بابت کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ لیکن اب اُسے نرملا کو ساری بات سنانا پڑی کہ کس طرح اس نے چوری چوری آم کھائے اور لسّی پینا بھول گیا۔ اور اس کی ران پر پیسے کے برابر پھوڑا نکل آیا۔ جب اس نے اپنی رام کہانی سنا کر نرملا سے رازدارانہ لہجے میں کہا تھا۔ ’’دیکھ نرملا! گھر میں یہ بات کسی سے نہ کہیو۔‘‘ تو نرملا نے بڑی متین صورت بنا کر جواب دیا تھا کہ ’’میں پاگل تھوڑی ہوں۔‘‘
گوپال کو یقین تھا کہ نرملا یہ بات اپنے تک ہی رکھے گی۔ چنانچہ اس نے پاجامے کو اوپر اڑس لیا، نرملا کا دل دھک دھک کرنے لگا، جب گوپال نے بیٹھ کر اپنا پھوڑا دکھایا۔ اور نرملا نے دور ہی سے اپنی انگلی سے اسے چھوا تو اس کے بدن پر ایک جھرجھری سی طاری ہو گئی۔ سی سی کرتے ہوئے اس نے ابھرے لال پھوڑے کی طرف دیکھا اور کہا، ’’کتنا لال ہے۔‘‘
’’ابھی تو اور ہو گا‘‘ گوپال نے اپنے مردانہ حوصلے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔ نرملا نے حیرت سے کہا، ’’سچ؟‘‘
’’ابھی تو کچھ لال نہیں ہے، جو پھوڑا میں نے چرنجی کے منہ پر دیکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بڑا اور لال تھا‘‘ گوپال نے پھوڑے پر دو انگلیاں پھیریں۔
’’تو ابھی اور بڑھے گا؟‘‘ نرملا آگے سرک آئی۔
’’کیا پتا ہے۔۔۔ ابھی تو اور بڑھتا چلا جا رہا ہے۔‘‘ گوپال نے جیب میں سے مرہم کی بتّی نکال کر کہا۔
نرملا سہم سی گئی، ’’اس مرہم سے تو آرام آ جائے گا نا؟‘‘
گوپال نے بتّی کے ایک سرے پر سے کاغذ کی تہ جدا کی اور اثبات میں سر ہلا دیا، ’’اس کا پھاہا لگانے ہی سے پھٹ جائے گا۔‘‘
’’پھٹ جائے گا۔‘‘ نرملا کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کے کان کے پاس ربڑ کا غبارہ پھٹ گیا ہے۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’اور اس کے اندر جو کچھ ہے پھوٹ بہے گا!‘‘ گوپال نے مرہم کو انگلی پر اٹھاتے ہوئے کہا۔
نرملا کا گلابی رنگ اب بمبئی کے مرہم کی طرح پیلا پڑ گیا تھا، اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا، ’’مگر یہ پھوڑے کیوں نکلتے ہیں بھیّا؟‘‘
’’گرم چیزیں کھانے سے!‘‘ گوپال نے ایک ماہر طبیب کے سے انداز میں جواب دیا۔
نرملا کو وہ دو انڈے یاد آ گئے جو اس نے دو ماہ پہلے کھائے تھے۔ وہ کچھ سوچنے لگی۔
گوپال اور نرملا کے درمیان چند باتیں اور ہوئیں۔ اس کے بعد وہ اصلی کام کی طرف متوجہ ہوئے، نرملا نے لٹھے کا ایک گول پھاہا کاٹا، بڑی نفاست سے، یہ روپے کے برابر تھا۔ اور اس کی گولائی میں مجال ہے ذرا سا نقص بھی ہو، اسی طرح گول تھا جس طرح نرملا کی ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی گول ہوتی تھی۔
گوپال نے اس پھاہے پر تھوڑا سا مرہم لگا دیا۔ اور اسے اچھی طرح پھیلانے کے بعد پھوڑے کی طرف غور سے دیکھا۔ نرملا گوپال کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ اور گوپال کی ہر حرکت کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ گوپال نے جب پھاہا اپنے پھوڑے کے اوپر جما دیا تو وہ کانپ گئی جیسے اس کے بدن پر کسی نے برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہے۔
’’اب آرام آ جائے گا نا؟‘‘ نرملا نے نیم سوالیہ انداز میں کہا۔
گوپال جواب دینے بھی نہ پایا تھا کہ برساتی کے برابر والی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز سنائی دی۔ یہ ان کی ماں تھی جو غالباً کوئلے لینے کے لیے آ رہی تھی۔
گوپال اور نرملا نے بیک وقت ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھا اورکچھ کہے سنے بغیر سب چیزیں اکٹھی کرکے اس پرانے صندوق کے پیچھے چھپا دیں جہاں ان کی بلی سندری بچے دیا کرتی تھی اور چپکے سے بھاگ گئے۔
یہاں سے بھاگ کر گوپال نیچے گیا۔ تو اس کے باپ نے اسے باہر فالودہ لانے کے لیے بھیج دیا۔ جب واپس آیا تو اسے گلی میں نرملا ملی، فالودے کا گلاس اس کے حوالے کرکے وہ چرنجی کے گھر چلا گیا۔ اور اس طرح ان چیزوں کو اپنی جگہ پر رکھنا بھول گیا جو ماں کے اچانک آ جانے سے اس نے اور نرملا نے صندوق کے پیچھے چھپا دی تھیں۔
چرنجی کے یہاں وہ دیر تک تاش کھیلتا رہا۔ کھیل سے فارغ ہو کر جب وہ چرنجی کی بغل میں ہاتھ ڈالے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔ تو کسی بات پر اس کا دوست ہنسا اور اس کے داہنے گال پر پھوڑے کا نشان لمبی سی لکیر بن گیا۔ اس کو دیکھ کر فوراً ہی اپنے پھوڑے کا گوپال کو خیال آیا اور اس خیال کے ساتھ ہی اسے وہ چیزیں یاد آگئیں جو صندوق کے پیچھے پڑی تھیں۔ چرنجی کی بغل سے ہاتھ نکال کر وہ بھاگا۔
گھر پہنچ کر اس نے وہاں کی فضا دیکھی، اس کی ماں صحن میں بیٹھی اس کے باپ سے ’’ملاپ‘‘ اخبار کی خبریں سن رہی تھی۔ دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ گوپال ان کے پاس سے گزرا۔ دونوں نے اس کی طرف دیکھا، مگر اس سے کوئی بات نہ کی، گوپال کو اطمینان ہو گیا کہ ابھی تک اس کی ماں نے اپنی سلائی کی پٹاری نہیں دیکھی۔ چنانچہ وہ چپکے سے کوٹھے پر چلا گیا۔ بڑے کوٹھے کو طے کرکے دروازے کے اندر داخل ہونے والا ہی تھاکہ اس کے قدم رک گئے۔ صندوق کے پاس بیٹھی نرملا کچھ کر رہی تھی۔ گوپال پیچھے ہٹ گیا۔ اور چھپ کر دیکھنے لگا۔
نرملا بڑے انہماک سے پھاہا تراش رہی تھی۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں قینچی سے بڑا نفیس کام لے رہی تھیں۔ پھاہا کاٹنے کے بعد اس نے تھوڑا سا مرہم نکال کر اس پر پھیلایا اور گردن جھکا کر اپنے کرتے کے بٹن کھولے، سینے کے داہنی طرف چھوٹا سا ابھار تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نلکی پر صابن کا چھوٹا سا نامکمل بلبلہ اٹکا ہوا ہے۔
نرملا نے پھاہے پر پھونک ماری اور اسے اس ننھے سے ابھار پر جما دیا۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |