پڑتی ہے نظر جب کہ پر و بال پر اپنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پڑتی ہے نظر جب کہ پر و بال پر اپنے
by جوشش عظیم آبادی

پڑتی ہے نظر جب کہ پر و بال پر اپنے
روتا ہوں قفس میں بہت احوال پر اپنے

عشاق کے احوال پہ کیا اس کو نظر ہے
وہ آپ دوانہ ہے خط و خال پر اپنے

تحسین عمل کب اسے منظور ہے اے شیخ
نظریں جو کرے آپ ہی اعمال پر اپنے

کس طرح سے میں پیر کروں عشق کا دعویٰ
پھبتی نہیں یہ بات سن و سال پر اپنے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse