پڑا ہے پاؤں میں اب سلسلہ محبت کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پڑا ہے پاؤں میں اب سلسلہ محبت کا
by واجد علی شاہ

پڑا ہے پاؤں میں اب سلسلہ محبت کا
برا ہمارا ہوا ہو بھلا محبت کا

جمال صاف کی موسیٰ کو تاب کب آئی
جو دیکھیے تو ہے طالب خدا محبت کا

ہر ایک در پہ ہے گردش میں میرا کاسۂ چشم
وہ شاہ حسن ہوا یہ گدا محبت کا

نہ سیم و زر کی ہے حاجت نہ کچھ حکومت کی
اگال دے کے دیا خوں بہا محبت کا

کدھر سے جاتا تھا اخترؔ یہ کیا ہوا افسوس
خدا بچائے ہوا سامنا محبت کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse