Jump to content

پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی

From Wikisource
پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی
by بیخود دہلوی
318817پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھیبیخود دہلوی

پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی
یہ شوخ نگاہی دم رخصت نہیں اچھی

سچ یہ ہے کہ گھر سے ترے جنت نہیں اچھی
حوروں کی ترے سامنے صورت نہیں اچھی

بھولے سے کہا مان بھی لیتے ہیں کسی کا
ہر بات میں تکرار کی عادت نہیں اچھی

کیوں کل کی طرح وصل میں تشویش ہے اتنی
تم آج بھی کہہ دو کہ طبیعت نہیں اچھی

جب اتنی سمجھ ہے تو سمجھ کیوں نہیں جاتے
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ حجت نہیں اچھی

حوروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا
کیوں اب بھی کہوگے تری نیت نہیں اچھی

پہنچا ہے قیامت میں بھی افسانۂ الفت
اتنی بھی کسی بات کی شہرت نہیں اچھی

ہم عیب سمجھتے ہیں ہر اک اپنے ہنر کو
کیا کیجئے مجبور ہیں قسمت نہیں اچھی

مل آئیے دیکھ آئیے آج آپ بھی جا کر
بیخودؔ کی کئی روز سے حالت نہیں اچھی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.