پوچھ لو گر جھوٹ کہتا ہوں دل ناکام سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوچھ لو گر جھوٹ کہتا ہوں دل ناکام سے  (1940) 
by سید ہمایوں میرزا حقیر

پوچھ لو گر جھوٹ کہتا ہوں دل ناکام سے
صبح کی ہے آج بھی رو رو کے میں نے شام سے

سابقہ ہے روز فردا اس بت خود کام سے
قبر میں سونے دے اے دل دو گھڑی آرام سے

رو رہے ہیں اب تو دشمن بھی جنازے پر کھڑے
آپ بھی گردن اٹھا کر دیکھ لیتے بام سے

آ گئی ہے یاد مجھ کو گردش چشم نگار
ساقیا نظارۂ دور مئے گلفام سے

کوئی مر جائے کہ فرقت میں رہے زندہ بگور
ان کو اپنے کام سے مطلب ہے اپنے نام سے

چھٹ کے پیشانی کی افشاں دیکھیں کس کس پر گرے
بجلیاں ناحق گراتے ہیں وہ بیٹھے بام سے

بعد مردن ہو گلی اس کی کہ دشت خار خار
واں بھی رہتے چین سے اور یاں بھی ہیں آرام سے

زہر ہو لیکن وہ مجھ کو اپنے ہاتھوں سے تو دے
یوں تو مطلب جام سے ہے اور نہ دور جام سے

عاشقی اچھی سہی انجام عشق اچھا نہیں
اے حقیرؔ اب درگزر کر اس خیال خام سے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse