پوچھے گا جو وہ رشک قمر حال ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوچھے گا جو وہ رشک قمر حال ہمارا
by حاتم علی مہر

پوچھے گا جو وہ رشک قمر حال ہمارا
اے مہرؔ چمک جائے گا اقبال ہمارا

سودے میں تری زلف کے لکھتے ہیں جو اشعار
ہوتا ہے سیہ نامۂ اعمال ہمارا

ابرو کا اشارہ کیا تم نے تو ہوئی عید
اے جان یہی ہے مہ شوال ہمارا

ہر بار دکھاتا ہے جنوں خانۂ زنجیر
اس گھر میں گزارا ہوا ہر سال ہمارا

آتے ہی وہ کہتے ہیں کہ جاتے ہیں بس اب ہم
بے چپن ہیں منگوایئے سکھ پال ہمارا

مضموں نہ بندھا موئے کمر کا تو وہ بولے
ٹیڑھا نہ ہوا شاعروں سے بال ہمارا

مہتاب سے کہتا ہے مرا چاند کا ٹکڑا
رخسار ترا صاف ہے یا گال ہمارا

تم عرش ہلاتے ہو قدم رکھ کے زمیں پر
اس چال سے دل ہو گیا پامال ہمارا

اک پل بھی جدا دیدۂ تر سے نہیں ہوتا
اب آنکھ کا پردہ ہوا رومال ہمارا

یاں روح پہ ہوتا ہے اس آواز کا صدمہ
جی لے گا شب وصل میں گھڑیال ہمارا

یاں گنج معانی ہے تو واں سیم و زر اے مہرؔ
دولت وہ بخیلوں کی ہے یہ مال ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse